Ghazal, Mirza Ghalib

غم کھانے میں بوداد دل ناکام بہت ہے
یہ رنج کہ کم ہے مِے گلفام بہت ہے

کہتے ہوئے ساقی سے حیا آتی ہے ورنہ
ہے یوں کہ مجھے درد تہ جام بہت ہے

نَے تیر کماں میں ہے نہ صیاد کمیں میں
گوشے میں قفس کے مجھے آرام بہت ہے

کیا زہد کو مانوں کہ نہ ہو گرچہ ریائی
پاداشِ عمل کی طمعِ خام بہت ہے

ہیں اہلِ خردکس روش خاص پہ نازاں
پابستگی رسم درہِ عام بہت ہے

زمزم ہی پہ چھوڑو مجھے کیا طوفِ حرم سے
آلودہ بہ مے جامۂ احرام بہت ہے

ہے قہر کہ اب بھی نہ بنے بات کہ اُن کو
انکار نہیں اور مجھے ابرام بہت ہے

خوں ہو کے جگر آنکھ سے ٹپکا نہیں اے مرگ
رہنے دے مجھے یاں کہ ابھی کام بہت ہے

ہو گا کوئی ایسا بھی کہ غالبؔ کو نہ جانے
شاعر تو وہ اچھا ہے پہ بدنام بہت ہے

Leave a comment